اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام کے دوسرے بڑے شہر حلب میں جاری تشدد کے نتیجے میں شہر سے دو دن میں دو لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے



حلب میں شہریوں کو خوراک کی کمی اور بجلی کے تعطل کا سامنا ہے۔

انسانی امداد کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے کی سربراہ بیرنس ویلری آموس کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کے علاوہ دیگر افراد شہر میں پھنسے افراد کو بھی امداد کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت لڑائی کا مرکز حلب کے جنوب مغرب میں صلاح الدین کا علاقہ ہے جہاں باغی جمع تھے۔
نامہ نگار ایئن پینل کے مطابق حکومتی فوج باغیوں پر حاوی ہو رہی ہے اور باغیوں نے شہر کی گلیوں میں گوریلا طرز کی جنگ لڑنا شروع کر دی ہے۔
سرکاری ٹی وی نے اتوار کی شام حلب شہر کے مناظر اور فوجیوں کے انٹرویو نشر کیے ہیں جس میں وہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے صلاح الدین علاقے کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
پیر کو دمشق میں بھی شامی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے علاقے کو ’صاف‘ کر دیا ہے تاہم حکومت مخالف کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں اب بھی باغیوں کا کنٹرول ہے اور پیر کو بھی لڑائی جاری ہے۔
کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حلب کے شمال مشرقی علاقے سخور میں بھی بمباری اور جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور وہاں بھی حکومتی فوجیں کارروائی کر رہی ہیں۔
"میں تمام متحارب گروہوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ حلب میں شہریوں کو نشانہ نہ بنائیں اور امدادی اداروں کو محفوظ راستہ فراہم کریں۔"
ویلری آموس
اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ اہلکار بیرنس ویلری آموس نے نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریڈ کراس اور شامی ہلالِ احمر کا اندازہ ہے کہ گزشتہ دو دن کے دوران دو لاکھ افراد نے حلب چھوڑ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’تاحال یہ واضح نہیں کہ شہر میں کتنے افراد اب بھی ان علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں لڑائی جاری ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے افراد نے اپنا گھر بار چھوڑ کر سکولوں اور دیگر سرکاری عمارتوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں تمام متحارب گروہوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ شہریوں کو نشانہ نہ بنائیں اور امدادی اداروں کو محفوظ راستہ فراہم کریں‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حلب سے نقل مکانی کرنے والے افراد قریبی دیہات یا پھر سرحد عبور کر کے ترکی چلے گئے ہیں۔
ادھر امریکہ کے وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کا حلب پر حملہ ان کے ’تابوت میں کیل‘ ثابت ہوگا۔ وہ مشرقِ وسطی کے پانچ روزہ دورے کے آغاز پر صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شام کا مسئلہ مزید کشیدہ ہوتا جا رہا ہے اور صدر الاسد اپنے ہی زوال کو تیز کر رہے ہیں۔