شام میں لڑائی جاری، سینکڑوں ہلاکتوں کی اطلاعات

 

شامی فوج نے ملک کو ’قاتل اور مجرم گروپوں‘ سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
شام کے کئی علاقوں میں صدر بشار الاسد کی حکومت اور اُس کے مخالفین کے درمیان لڑائی کا سلسلہ گزشتہ رات سے جاری ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ہی نے کہا ہے کہ یہ شام میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے جاری تنازع کے دوران سب سے زیادہ خونریز لڑائی ہے جس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سرکاری فورسز نے دارالحکومت دمشق کے جنوب میں ستِ زینب نامی علاقے میں ایک جنازے کے موقع پر حملہ کیا ہے جس میں توپوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا گیا۔ اِس حملے میں ساٹھ افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
بیروت میں بی بی سی کے نامہ نگار جم میور کا کہنا ہے کہ اِس حملے کی جو ویڈیو انٹرنیٹ پر جاری کی گئی ہے اُس میں افراتفری کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔
لندن میں قائم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جمعرات کو شام کے مختلف علاقوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
حکومت مخالف کارکنوں کا کہنا ہے کہ مغرب کی جانب سے دمشق کی طرف مزید ٹینکوں کو آتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
ادھر امریکہ کا کہنا ہے کہ شام میں بم حملے میں دفاعی امور سے متعلق تین اعلیٰ شخصیات کی ہلاکت اس بات کی غماز ہے کہ ملک پر صدر بشار الاسد کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ بیان دمشق میں نیشنل سکیورٹی ہیڈکوارٹرز میں ہونے والے دھماکے میں وزیر دفاع جنرل داؤد راجحہ، نائب وزیر دفاع اور صدر الاسد کے برادرِ نسبتی جنرل آصف شوکت اور صدر کی کرائسز ٹیم کے سربراہ جنرل حسن ترکمانی کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا ہے۔
صدر اسد اِس حملے کے بعد سے عوام کے سامنے نہیں آئے ہیں اور ابھی یہ نہیں پتہ کے وہ کہاں ہیں۔
باغی گروپ فری سیرئن آرمی کا کہنا ہے کہ یہ بم دھماکے سے ایک دن قبل نصب کیا گیا تھا اور اب حکومت کا فوری طور پر جانا یقینی ہے۔
شامی فوج نے ملک کو ’قاتل اور مجرم گروپوں سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے‘۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اس واقعے نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ صدر بشار الاسد کنٹرول کھو رہے ہیں۔ ہمارے تمام عالمی اتحادیوں کو آگے بڑھ کر مشترکہ طور پر اقتدار کی منتقلی کی حمایت کرنی چاہیے‘۔
"اس واقعے نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ صدر الاسد کنٹرول کھو رہے ہیں۔ ہمارے تمام عالمی اتحادیوں کو آگے بڑھ کر مشترکہ طور پر اقتدار کی منتقلی کی حمایت کرنی چاہیے۔"
جے کارنی، ترجمان وائٹ ہاؤس
ابتدائی طور پر اسے ایک خودکش دھماکہ کہا گیا جبکہ اب باغی گروپ اسے نصب شدہ بم قرار دے رہے ہیں۔ بی بی سی کی لینا سنجاب کے مطابق جس عمارت میں یہ دھماکہ ہوا وہاں کی کسی کھڑکی کا شیشہ تک ٹوٹا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔
لبنان میں عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’ٹارگٹ کلنگ‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہلاک شدگان ہماری یادوں میں رہیں گے اور ہم شامی قیادت اور فوج سے تعزیت کرتے ہیں‘۔
اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے اس دھماکے کو صدر اسد کے لیے ’بڑا دھچکا‘ قرار دیا ہے جبکہ شام کی حکومت کے حامی روس کا کہنا ہے کہ کچھ ممالک شام میں صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے اپوزیشن کو بھڑکا رہے ہیں۔
اس حملے کی وجہ سے ہی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام پر سخت پابندیوں کی قرارداد پر ووٹنگ جمعرات تک ملتوی کر دی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے اور کہا ہے کہ شام میں تشدد بند کرانے کے لیے متحد ہو کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وقت نکلا جا رہا ہے اور شام کے عوام حد سے زیادہ مصیبتیں اٹھا چکے ہیں۔ یہ خونریزی اب بند ہونی چاہیے‘۔
شام میں اقوامِ متحدہ کے مبصر مشن کی مدت جمعہ کو ختم ہو رہی ہے اور سلامتی کونسل کی قرارداد نہ صرف اس مدت میں اضافہ کرے گی بلکہ شام کے لیے عالمی ایلچی کوفی عنان کے امن منصوبے کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب سات میں شامل کرے گی جس کے نتیجے میں شام میں طاقت کا استعمال بھی ممکن ہو سکے گا۔
صدر بشار الاسد کا حامی روس سخت اقدامات کے خلاف ہے۔ بدھ کو روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر براک اوباما کے درمیان ٹیلیفون پر ہونے والی بات چیت میں دونوں رہنما شام میں خونریزی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل پر متفق نھیں ہو سکے تھے۔